ریفری نہ بدلا گیا تو ایشیا کپ میں مزید میچز نہیں کھیلیں گے، پاکستان کا سخت مؤقف
NEWS
9/16/20251 min read
پی سی بی کا سخت مؤقف
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ایشیا کپ کے حالیہ میچوں میں ریفری اینڈی پائی کرافٹ کی فیصلوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک واضح اور سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ پی سی بی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگر اینڈی پائی کرافٹ کو فوری طور پر تبدیل نہیں کیا گیا تو پاکستان اپنے باقی میچز میں شرکت نہیں کرے گا۔ یہ مؤقف پاکستان کے کرکٹ حلقوں میں ایک سنجیدہ طبقاتی بحث کا آغاز کر چکا ہے اور کھلاڑیوں، شائقین اور ماہرین کے درمیان شدید تشویش کی لہر پیدا کر رہا ہے۔
پی سی بی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اینڈی پائی کرافٹ کی جانب سے دیئے گئے چند فیصلے کھیل کے اصولوں کے مطابق نہیں ہیں اور ان کے فیصلوں نے میچ کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ، پی سی بی نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرے تاکہ آئندہ اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکے۔ ان کا یہ مؤقف اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان کرکٹ کو اپنے حقوق کے تحفظ کی کس قدر فکر ہے، اور وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ٹیم کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔
مزید برآں، پی سی بی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ کوئی معمولی اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ قوم کی کرکٹ ٹیم اور اس کی انفرادی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے پی سی بی کا مؤقف ایک مضبوط پیغام ہے جو دیگر کرکٹ بورڈز کو بھی صورتحال کی حساسیت سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کے پیش نظر، بین الاقوامی کھیلوں کی حکومتی اداروں کو چاہئے کہ وہ تمام اطمینان بخش اقدامات اٹھائیں تاکہ اس طرح کے متنازعہ حالات پیش نہ آئیں۔
میچ ریفری کا متنازع رویہ
ایشیا کپ کے دوران میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کے اقدامات نے کئی سوالات کو جنم دیا، خاص طور پر ٹاس کے دوران پیش آنے والے غیر متوازن رویے کی وجہ سے۔ ٹاس کے موقع پر دونوں کپتانوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت اہم تھا، اور یہ واقعہ کھیل کی روح کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا۔ اینڈی پائی کرافٹ نے جس انداز میں فیصلہ لیا، اس کے بعد دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں اور ان کے کپتانوں کے چہروں پر صاف طور پر پریشانی نظر آئی۔
کئی محفلوں میں یہ بات سامنے آئی کہ میچ ریفری کا غیر منصفانہ رویہ صرف ایک تاثر نہیں بلکہ حقیقت تھا، جس نے کسی ایک ٹیم کو غیرضروری طور پر متاثر کیا۔ اس صورتحال نے تقریباً ہر ایک کے ذہن میں یہ سوال پیدا کیا کہ کیا واقعی ریفری کا کردار غیرجانب دار رہا ہے؟ اینڈی کے فیصلے نے ٹاس کے حتیٰ اگر اثرانداز ہوا، تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے فیصلے میں شفافیت کا فقدان موجود تھا۔
یہاں تک کہ کھیل کے میدان پر مخصوص واقعات نے بھی اس معاملے میں اضافہ کیا تھا، جیسے کہ اینڈی کی جانب سے بعض اوقات مختلف معیارات کے تحت فیصلے لینا۔ یہ عمل نہ صرف میچ کی توازن کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ دونوں ٹیموں کے درمیان تاثرات کو بھی مزید خراب کر سکتا ہے۔ اگر اس طرح کی صورتحال کے حل نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ پاکستان کی جانب سے مزید سخت مؤقف اختیار کیا جائے جس کا اثر پورے ٹورنامنٹ پر پڑ سکتا ہے۔
آئی سی سی کو خط لکھنے کی وجوہات
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے حال ہی میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں ان کی ناپسندیدہ صورتحال کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ خط اس وقت تحریر کیا گیا جب یہ بات سامنے آئی کہ ایشیا کپ 2023 کے دوران ریفری کے انتخاب پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں۔ پی سی بی نے اپنی مخالفت کی وجوہات کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر اس معاملے کا حل نہ نکالا گیا تو وہ مزید میچز کھیلنے سے انکار کر سکتے ہیں۔
خط میں شامل کچھ اہم نکات میں شامل ہیں: پہلا، پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ ریفری کو غیرجانب دارانہ فیصلہ سازی میں ناکامی کا سامنا ہے، جو کہ کسی بھی میچ کی شفافیت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ دوسرا، خط میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ ٹورنامنٹ کی شفافیت کسی بھی کرکٹ سرگرمی کے لیے اولین ترجیح ہونی چاہیے، جس کی خلاف ورزی پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔ پی سی بی نے اضافی طور پر یہ دعویٰ کیا کہ ماضی میں بھی ریفری کے فیصلوں میں جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے، جس نے پاکستان کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا ہے۔
اس خط کا مقصد نہ صرف آئی سی سی کی توجہ مبذول کروانا ہے بلکہ پورے کرکٹ کمیونٹی میں ایک موثر اور غیرجانب دار ریفری کے انتخاب کی بھی حمایت کرنا ہے۔ پی سی بی کی جانب سے یہ پیش رفت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کے حقوق اور انصاف کے لئے بے حد سنجیدہ ہیں۔ یہ صورتحال کرکٹ کے مستقبل کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے، جس کا اثر نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ملکوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ آئی سی سی کو اس معاملے میں فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کھیل کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
بھارت کے خلاف میچ کی صورتحال
بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ میچ میں ریفری کے فیصلے کئی تنازعات کا باعث بنے، جس نے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں اور شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ میچ کے دوران کچھ ایسے اہم مواقع پیش آئے جہاں ریفری کے فیصلے ہیں جنہوں نے میچ کی رفتار اور ممکنہ نتیجے پر اثر انداز کیا۔ اس میچ نے ایک بڑی تعداد میں شائقین کو مایوس کیا، خاص طور پر جب چند فیصلے متنازعہ ثابت ہوئے اور کھیل کی شفافیت پر سوالات اٹھنے لگے۔
193 رن کے ٹارگٹ کے جواب میں پاکستان کی بیٹنگ لائن کو چلتے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ اہم درست اسٹرائیک کرنے کے مواقع کو ریفری نے نظر انداز کیا، جس سے پاکستان کے کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ ان متنازعہ فیصلوں نے نہ صرف کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی بلکہ تماشائیوں کے درمیان بھی ہنگامہ برپا کر دیا۔ آخرکار، ریفری کے کچھ فیصلوں پر شائقین کی جانب سے کھل کر تنقید کی گئی، جس نے اس میچ کا ماحول تناؤ بھرا بنا دیا۔
کئی شائقین اور ماہرین نے اس بارے میں بحث کی کہ اگر ریفری کے متنازعہ فیصلے درست ہوتے تو میچ کا نتیجہ کچھ اور ہو سکتا تھا۔ اس میچ کے نتائج نے نا صرف دونوں ٹیموں کے اعتماد پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں بلکہ اس کی گونج مستقبل کے میچز میں بھی سنائی دے سکتی ہے۔ اگر ریفری کی تعیناتی میں تبدیلی نہیں کی گئی تو ممکنہ طور پر پاکستان مزید میچز میں حصہ نہیں لے گا، جو کہ اس ٹورنامنٹ کی حیثیت کو متاثر کرسکتا ہے۔
پاکستان کی ممکنہ حکمت عملی
پاکستان نے ایشیا کپ میں حصہ لینے کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگر ریفری کی تبدیلی کا معاملہ حل نہیں ہوتا تو پاکستان کو اپنے موقف کو مزید واضح کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان کی ٹیم کے لیے اہم ہے بلکہ اس کے اسٹریٹجک فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کچھ امکانات ہیں جو قومی کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے، پاکستان اس بات پر غور کر سکتا ہے کہ وہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے کسی قسم کی مشاورت کرے اور مسئلے کو سنا جائے تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ یہ ریفری کی تبدیلی کیوں ضروری ہے۔ حکومتی اور عوامی سطح پر دباؤ بنا کر پی سی بی اس مسئلے کو مزید اجاگر کر سکتا ہے۔ اگر ان مطالبات پر کاروائی نہیں ہوتی تو پاکستان کی طرف سے میچز میں غیر موجودگی کا اعلان بھی ممکن ہے۔
دوسری جانب، ممکنہ طور پر پاکستان کا یہ بھی منشور ہو سکتا ہے کہ وہ لیگ کے دیگر ٹیموں کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر ایک وفاقی دباؤ بنائے اور ایک مشترکہ مؤقف اختیار کرے۔ یہ حکمت عملی بین الاقوامی کرکٹ کے پلیٹ فارم پر پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل کر سکتی ہے، جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے۔
اگر ان تمام حکمت عملیوں کے باوجود ریفری کو تبدیل نہیں کیا جاتا، تو پاکستان کی عدم موجودگی کا اثر نہ صرف ایونٹ کی ساکھ پر پڑے گا بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک اشارہ ہوگا کہ وہ بھی مناسب کارروائیاں کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال ایک نئی کھیلی جانے والی حکمت عملی کی ضرورت کو بھی اجاگر کرے گی۔
کھلاڑیوں کے تاثرات
ایشیا کپ کے میچوں میں ریفری کے کردار پر کھلاڑیوں کے خیالات مختلف النوع ہیں۔ بعض کھلاڑیوں نے اس موضوع پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مناسب اور قابل اعتماد ریفری اسی چیز کی ضمانت فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر کھیل کی حقیقت کو جانچا جا سکے۔ پاکستانی کھلاڑیوں میں سے ایک نے وضاحت کی کہ "اگر ریفری کی قابلیت پر سوالات کھڑے ہوں تو یہ ہمارے کھیل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ محض ایک میچ نہیں بلکہ ہماری محنت اور لگن کا عکاس ہوتا ہے۔" ان کے بقول، کھیل کی باقاعدگی اور شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ایک مستند ریفری کا ہونا ضروری ہے۔
کچھ دوسرے کھلاڑیوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ ان کی کارکردگی میں ریفری کی فیصلہ سازی کا ایک بڑا اثر ہوتا ہے۔ ایک کھلاڑی کا کہنا تھا، "جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلے ریفری کی انصاف پسندی پر منحصر ہیں، تو یہ ہمارے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔ کھیل کے اعلیٰ معیار کی بقا کے لیے ہمیں مجبوراً یہ مطالبہ کرنا ہوگا کہ ریفری کو تبدیل کیا جائے۔" انہوں نے مزید کہا کہ اگر ریفری کو تبدیل نہیں کیا گیا تو یہ امر ان کے ذہنی سکون کو برباد کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی پرفارمنس متاثر ہو سکتی ہے۔
کچھ کھلاڑیوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں جہاں فیصلہ کن مواقع پر غلط فیصلے ہو سکتے ہیں، ان کی ذاتی اور ٹیم کی کامیابی متاثر ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق، کھلاڑیوں کی جنون اور ایثار کی قدر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کھیل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ ایشیا کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹس میں ان کی محنت کا اصل ہدف ان کے ملک کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ عمل ایک منصفانہ ماحول میں ہو۔
اس صورتحال کے ممکنہ نتائج
اگر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اپنے مؤقف پر قائم رہتا ہے اور ریفری کی تبدیلی کے مطالبے پر زور دیتا ہے، تو اس کے ممکنہ نتائج غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ پہلے تو، ایک سخت موقف بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی موجودہ حیثیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اگر پی سی بی کی بات نہیں مانی گئی تو اس کے باعث پاکستان کرکٹ ٹیم کا بین الاقوامی کرکٹ میں موجودہ مقام متاثر ہو سکتا ہے اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
ادھر، اس صورتحال کے ایک مثبت پہلو کی جانب بھی نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ اگر پی سی بی اپنے مؤقف پر قائم رہنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ بین الاقوامی کرکٹ تنظیموں کے سامنے کھڑی طاقتور مثال بنے گی۔ ممکن ہے کہ دیگر ٹیمیں بھی پی سی بی کی طرح اپنی تشویشات کا اظہار کرنے میں بااختیار ہوں، جس سے بین الاقوامی کرکٹ کے فیصلوں میں شفافیت کی ضرورت بڑھ سکتی ہے۔ اس صورت میں، ریفریوں کے انتخاب میں مزید احتیاط اور عزم پیدا ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں میچوں کی بحری کمپنی اور شفافیت میں بہتری آ سکتی ہے۔